کارونجھر کے پہاڑ کی کھدائی سے حکومت سندھ
کو6ٹریلین ڈالرز سے زائد کی رقم حاصل ہو گی۔
وزیر معدنیات و کان کنی حکومت سندھ، میر خدا
بخش مری
خصوصی نیوز رپورٹ: امر گرُڑو

کراچی: سدھ کے تھر میں نگرپارکر شہر کے پاس انڈین سرحد سے متعصل پاڑی سلسلے کارونجھر مختلف رنگوں والے گرینائٹ چٹانوں پر مشتمل ہے۔
اپنے رنگوں کے باعث کارونجھر کا گرینائٹ انتہائی قیمتی سمجھا جاتا ہے۔
سابقہ سندھ حکومت نے کارونجھر پہاڑی پر گرینائٹ کی ماننگ کی کوشش کی جس پر سندھ کے لوگوں نے شدید ردعمل دیا، جس کے بعد سابق سندھ حکومت نے ماننگ کا فیصلہ واپس لے لیا۔
علاوہ ازیں سندھ ہائی کورٹ نے بھی اپنے تاریخی فیصلے میں کارونجھر پر مائنگ پر مکمل پابندی عائد کردی۔
یاد رہے کہ سندھ حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلینج کردیاہے اور کارونجھر پہاڑ کی کھدائی تنازعے پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔
تاہم عدالتی فیصلے سے قبل سندھ کی نگران حکومت نے ایک بار پھر کارونجھر سے ماننگ کرنے کا اعلان کیا۔
کا ٹرینڈ چلا رہے ہیں۔#SaveKaroonjhar جس پر شدید ردعم دیتے ہوئے سوشل میڈیا صارفین
میر خدا بخش مری نگراں وزیر معدنیات و کان کنی حکومت سندھ نے کارونجھر کا پچھلے دنوں ایک ہنگامی دورہ کیا۔ جس میں انہوں نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ کارونجھر پہاڑ معدنیات کا خزانہ ہیں۔
یہاں ریڈ گرینائٹ کی وافر مقدار میں موجودگی باعث مسرت ہے۔ پاکستان بالخصوص سندھ صوبےکو ان پہاڑوں پر موجود گرینائٹ سے 6 ٹریلین ڈالرز سے زائد زرمبادلہ حاصل ہوگا۔

میر خدا بخش مری نے مزید کہا کہ ہمارا پلان ہے کہ ہم اس پہاڑ کی کھدائی کریں گے۔ جو رامٹیرئل حاصل ہوگا اس کا پروسیسینگ پلانٹ اسی جگہ لگائیں گے۔
یہاں کے مقامی لوگ اس انڈسٹری کا حصہ ہوں گے۔ یوں اس علاقے کو ترقی دے کر لوگوں کو خوشحال بنایا جائے گا۔
مقامی سوشل ایکٹیوسٹ اللہ رکھا کھوسو نے نگران وزیر معدنیات و کان کنی کی میڈیا بریفنگ پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ ہمارے علاقے میں بورنگ کریں تو700فٹ تک پانی نہیں ملے گا۔
ایسے میں اللہ کی مہربانی سے ہمارے پاس پانی اور کھیتی باڑی جبکہ آبی اور جنگلی حیات اور نباتاتی پودوں اور جنگلوں کے لئے بھی کارونجھر کے پہاڑ پانی کا واحد ذریعہ ہیں۔
یہ پہاڑ جو سال میں ایک بار ہونے والی بارش کے پانی کو محفوظ کرکے اسے زمین تک پہنچانے کا سبب بنتے ہیں اگر آپ اس کی کھدائی کریں گے تو یہاں کا ماحول تباہ ہوجائے گا۔
اللہ رکھا کھوسو نے مزید کہا کہ نگر پارکر کے لوگ خوشحال ہیں۔ یہاں کے باشندے خودکشی نہیں کرتے بلکہ ان کے اپنے مال مویشی اور اپنی زمینیں ہیں جن پر وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔
یہاں امن ہے منسٹر صاحب،آپ ہمارے قدیمی جگہ کے امن و سکون کو تباہ نہ کریں۔
نگراں وزیر معدنیات و کان کنی میر خدا بخش مری نے تھر کے مقامی باشندوں کے تلخ سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس جگہ پانی نہ ہونے کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔
میں مقامی آبادی کو پانی فراہم کروں گا۔ یہاں کوئی بھوکا نہیں مرے گا۔ نگر پارکر اور اس کے لوگوں کی تقدیر میں بطور منسٹر بدلوں گا۔
نگراں وزیر معدنیات و کان کنی میر خدا بخش مری نے ایک اور سوال کے جواب پر تھر کے لوگوں سے وعدہ کیا کہ اس کا حال تھر کول مائنگ جیسا نہیں ہوگا۔ ہمارے منصوبے میں اس جگہ کی ترقی ملحوظ خاطر ہے۔
واضح رہے کہ انڈین بارڈر کے قریب ’’ایف ڈبلیو او‘‘ اور ’’کوہ نور‘‘ مائنگ کمپنی گزشتہ کئی عرصے سے گرینائٹ کے حصول کے لئے کارونجھر پہاڑ کی کھدائی کر رہی ہے۔
سندھ حکومت نے 1958 میں ایک نوٹی فکیشن کے تحت کارونجھر کو ‘پروٹیکٹیڈ فاریسٹ’ کا درجہ دیا۔ جس کے تحت کارونجھر میں موجود جنگلات و معدومیت کا شکار جنگلی حیات، درخت، پودے، نایاب قدرتی جڑی بوٹیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
کارونجھر کو سندھ حکومت نے 1972 میں ‘رن آف کچھ وائلڈ لائف سینکچری’ ڈکلیئر کیا۔ وائلڈ لائف سینکچری میں ڈرلنگ اور ماننگ پر قانونی طور پر پابندی ہے۔

‘رن آف کچھ وائلڈ لائف سینکچری’ میں کارونجھر کا تمام رقبہ شامل ہے اور یہ ‘رامسر انٹرنیشنل کنوینشن’ کے تحت ‘رامسر سائیٹ’ ڈکلیئر ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سائیٹ کو عالمی سطح پر تحفظ حاصل ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل رامسر کنوینشن کا سگنیٹری ہے۔

کی آخری پناہ گاہ ہے۔(species)کارونجھر پہاڑ کئی اقسام کے جانوروں کی نسلوں
((Star Tortoise))پاکستان میں اسٹار کچھوے
کا واحد مسکن ہے۔
پائے جاتے ہیں۔striped hyena کارونجھر پاکستان میں ان چند مقامات میں سے ایک ہے جہاں چرخ یا دھاری دار لکڑ بھگے یا
حال ہی میں محکمہ جنگلی حیات سندھ کے عملے کو کارونجھر کے پہاڑ میں معدومی کے شکار
نامی چڑیا نظر آئی۔Browed Bushchat White
محکمہ جنگلی حیات کے سندھ کے مطابق، یہ چڑیا 80 سال بعد نظر آئی ہے۔

: یہ بھی پڑھیں
کارونجھر پہاڑی سلسلے کی تقسیم
پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں ایشیا میں پائے جانے گدھوں کے 9 اقسام میں 8 اقسام پائے جاتے ہیں۔ چھانگا مانگا جنگلات کے بعد کارونجھر پاکستان میں واحد جگہ ہے جہاں گدھ اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔
محکمہ جنگلی حیات سندھ کے مطابق کارونجھر پہاڑی سلسلے میں 200 سے زائد اقسام کے چرند و پرند پائے جاتے ہیں۔
سندھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ 2020 کے سیکشن نو کے تحت ‘پروٹیکڈیڈ وائلڈ لائف سینکچری’ قرار دیے جانے والے علاقے میں کسی قسم کا شکار، شوٹنگ، جانور کو ہلاک یا زخمی کرنے، پریشر ہارن بجانے، آگ جلانے یا کسی بھی قسم کی ڈرلنگ یا ماننگ کی مکمل طور پر پابندی ہے۔